تحریر: سید رفاقت علی کاظمی
حوزہ نیوز ایجنسی|
خطِ مالکِ اشتر، جو امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے نامزد گورنر مالکِ اشتر نخعیؒ کے نام تحریر فرمایا جو اسلامی سیاسی فکر کا ایک بے مثال اور آفاقی دستاویز ہے۔ یہ خط محض انتظامی ہدایات کا مجموعہ نہیں، بلکہ عدل، تقویٰ، انسانی حقوق، سماجی انصاف اور اخلاقی حکمرانی پر مبنی ایک مکمل ریاستی فلسفہ پیش کرتا ہے۔
زیرِ نظر مقالہ میں اس خط کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ علوی طرزِ حکومت آج کے جدید سیاسی و سماجی تناظر میں بھی کس قدر رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
تمہید:
ماہِ رجب اسلامی تقویم کا ایک نہایت بابرکت اور روحانی مہینہ ہے جو انسان کو محاسبۂ نفس، رجوع الی اللہ اور عدل و تقویٰ کی عملی راہوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی ماہ میں امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی، جن کی ذاتِ اقدس تاریخِ انسانی میں عدل، حکمت اور انسان دوستی کا روشن استعارہ ہے۔
امیرالمؤمنینؑ کا وہ تاریخی مکتوب، جو آپؑ نے مالکِ اشتر نخعیؒ کے نام تحریر فرمایا (نہج البلاغہ، مکتوب 53)، اسلامی سیاسی فکر میں ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خط حکمرانی کے اخلاقی، سماجی اور انتظامی اصولوں کو نہایت جامع انداز میں بیان کرتا ہے، جو ہر زمانے اور ہر معاشرے کے لیے قابلِ اطلاق ہیں۔
تقویٰ: علوی نظامِ حکومت کی اساس
امام علیؑ اس خط کا آغاز حکومت کے ظاہری ڈھانچے یا طاقت کے مظاہر سے نہیں کرتے، بلکہ حاکم کی باطنی اصلاح کو ریاستی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
أَمَرَهُ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَإِيثَارِ طَاعَتِهِ، وَاتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِهِ فِي كِتَابِهِ.
اس ارشاد میں واضح کیا گیا ہے کہ تقویٰ کے بغیر اقتدار محض جبر کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جبکہ تقویٰ کے ساتھ اقتدار عبادت اور خدمتِ خلق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ علوی فکر کے مطابق وہی حاکم عوام کے حقوق کا محافظ بن سکتا ہے جو خود کو خدا کے حضور جواب دہ سمجھتا ہو۔
رعایا کے ساتھ رحمت و محبت: حکمرانی کا انسانی زاویہ
خطِ مالکِ اشتر میں حکمران اور رعایا کے تعلق کو خوف اور جبر کے بجائے محبت، رحمت اور نرمی پر قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ امامؑ فرماتے ہیں:
وَأَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ، وَالْمَحَبَّةَ لَهُمْ، وَاللُّطْفَ بِهِمْ.
یہ تصورِ حکمرانی علوی نظام کو دیگر سیاسی نظریات سے ممتاز کرتا ہے، جہاں حاکم عوام پر مسلط قوت نہیں، بلکہ ان کے لیے سایۂ رحمت ہوتا ہے۔
اسی تناظر میں امام علیؑ کا وہ مشہور اور آفاقی فرمان انسانی مساوات کی اعلیٰ مثال ہے:
فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ، أَوْ نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ.
یہ اصول انسانی حقوق، مذہبی رواداری اور عالمی اخوت کی ایک مضبوط فکری بنیاد فراہم کرتا ہے۔
عدلِ اجتماعی اور ظلم کا انجام
امیرالمؤمنینؑ کے نزدیک حکومت کی بقا اور معاشرتی استحکام کا دار و مدار عدل پر ہے۔ آپؑ ظلم کے انجام کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَإِنَّ الظُّلْمَ لَا يُقَدِّمُ دَوْلَةً، وَلَا يُؤَخِّرُ أَجَلًا
تاریخِ انسانی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ظلم وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر بالآخر ریاستوں کے زوال اور قوموں کی تباہی کا سبب بنتا ہے، جبکہ عدل اقوام کو زندگی اور دوام بخشتا ہے۔
کمزور طبقات کا تحفظ: ریاست کی اخلاقی ذمہ داری
خطِ مالکِ اشتر میں امام علیؑ نے کمزور، غریب اور بے سہارا طبقے کو خصوصی توجہ کا مستحق قرار دیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: اللَّهَ اللَّهَ فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ.
یہ ارشاد واضح کرتا ہے کہ علوی نظام میں غریب طبقہ بوجھ نہیں بلکہ حکومت کی امانت ہے۔ کسی بھی ریاست کا اخلاقی معیار اسی بات سے جانچا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے کمزور شہریوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔
مشیروں اور اہلکاروں کا انتخاب:
انتظامی حکمت
امام علیؑ حکومت کی کامیابی کے لیے صحیح مشیروں کے انتخاب کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: وَلَا تُدْخِلَنَّ فِي مَشُورَتِكَ بَخِيلًا،
وَلَا جَبَانًا،وَلَا حَرِيصًا يُزَيِّنُ لَكَ الشَّرَهَ بِالْجَوْرِ.
یہ اصول اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ غلط مشیر نہ صرف حکمران بلکہ پورے نظام کو تباہ کر سکتا ہے، جبکہ دیانت دار اور حق گو مشیر ریاست کو عدل اور استحکام کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
نتیجۂ تحقیق:
اس تحقیقی مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خطِ مالکِ اشتر محض ایک تاریخی دستاویز نہیں بلکہ ایک زندہ اور آفاقی منشور ہے، جو:
حکومت کو امانت قرار دیتا ہے، سیاست کو اخلاق سے جوڑتا ہے اور اقتدار کو عبادت کا درجہ عطا کرتا ہے؛ اگر آج کے معاشروں میں عدل، امن اور انسانی وقار کو فروغ دینا مقصود ہے تو علوی نظامِ حکمرانی کو محض نعرے کے طور پر نہیں، بلکہ عملی ریاستی ماڈل کے طور پر اپنانا ہوگا۔









آپ کا تبصرہ